کویت اردو نیوز 22 مئی: گزشتہ روز ہفتہ کو معروف افغان ٹی وی چینلز پر کام کرنے والی خواتین براڈکاسٹرز طالبان حکام کے اس فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے دیکھا گیا جس میں انہیں نشریات کے دوران اپنے چہرے ڈھانپنے کا پابند کیا گیا تھا۔
اگست میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے شریعت کی اپنی سخت پالیسی کے مطابق بتدریج خواتین کی آزادیوں میں کمی کی ہے اور صنفی امتیاز کی شکلیں مسلط کر دی ہیں جبکہ اس مہینے کے آغاز میں تحریک اور ملک کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخندزادہ نے عوامی مقامات پر خواتین کو پردہ کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ وزارت برائے فروغِ فضیلت اور نافرمانی کی روک تھام نے براڈکاسٹرز سے کہا ہے کہ وہ ہفتہ سے شروع ہونے والے اس فیصلے کی پابندی کریں جبکہ عائد کردہ شرائط صرف سر پر اسکارف پہننے تک محدود ہو گی تاکہ ٹی وی چینلز پر خواتین اپنے سروں کو ڈھانپ کر خبریں پڑھیں تاہم
اس کے برعکس، ’ٹولو نیوز‘، ’شمشاد ٹی وی‘ اور ’ون ٹی وی‘ چینلز کی خواتین پریزینٹرز ہفتے کے روز براہ راست نشریات کے دوران اپنے چہرے بے نقاب کیے ہوئے نظر آئیں۔
Taliban ordered female presenters to cover their faces while appearing on TVs. Female presenters of Tolo and 1 TV are forced to wear black mask on live broadcasting shows. #Afghanistan pic.twitter.com/P96xuriwLa
— Zahra Rahimi (@ZahraSRahimi) May 19, 2022
شمشاد ٹی وی چینل کے نیوز ڈائریکٹر عبید احساس نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ہماری خواتین ساتھیوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ اس فیصلے سے ان کی وابستگی انہیں کام سے معطل کرنے کی طرف پہلا قدم ہو گی۔” انہوں نے مزید کہا کہ چینل نے اس مسئلے کے بارے میں طالبان سے مشاورت کرنے کو کہا تھا۔ ایک نشریاتی ادارے کے مطابق طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے ان فیصلوں نے بہت سی افغان خواتین صحافیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔
صحافی جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کو ترجیح دی مزید کہا کہ تازہ ترین فیصلے نے "براڈکاسٹرز کے دل توڑ دیے جو یہ سمجھتی ہیں کہ ان کا اس ملک میں اب کوئی مستقبل نہیں ہے”۔ اس نے اشارہ کیا کہ وہ ملک سے جانے پر غور کر رہی ہے۔
The Death of Modern Journalism in Afghanistan—female anchor under the Taliban regime. pic.twitter.com/GXIUZXtf3D
— Hizbullah Khan (@HizbkKhan) May 19, 2022
منسٹری آف پروموشن برائے فضیلت اور نافرمانی کی روک تھام کے ترجمان محمد صادق عاکف مہاجر کا کہنا ہے کہ خواتین براڈکاسٹر طالبان کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہیں یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ "ہر ایک جو حکمران حکومت کے تحت رہتا ہے اسے اس کے قوانین اور ضوابط کی پابندی کرنی چاہیے اس لیے انہیں بھی اس کی پابندی کرنی چاہیے”۔
اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں مہاجر نے خبردار کیا کہ اگر وہ تعمیل کرنے سے انکار کرتی ہیں تو حکام براڈکاسٹرز کے والدین اور آفیشلز سے بات کریں گے۔ طالبان حکام نے حکم دیا ہے کہ سرکاری اداروں میں خواتین ورکرز اگر نئے قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو انہیں نکال دیا جائے۔ عوامی دفاتر میں کام کرنے والے مردوں کو برطرفی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ان کی بیویاں یا بیٹیاں فیصلوں کی پابندی کرنے میں ناکام رہیں۔