جب ہم آج پاکستان کے جمہوری نظام کے پیدا کردہ حکمرانوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک مکمل خلاءنظر آتا ہے۔یہ حقیقت پوری قوم کے سامنے واضح ہے کہ پاکستانی حکمران تخت اسلام آباد اور تخت لاہور کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ
ملک کا بڑا حصہ سیلابی پانی میں ڈوبا کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں ریاستی مشینری اور وسائل کی عدم موجودگی بالکل واضح ہے۔ اس صورتحال میں جبکہ 30عرب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے کھڑی فصلیں برباد ہو گئی ہیں، لاکھوں مویشی سیلاب کی نظر ہو گئے تو پوری ریاستی مشینری ، حکمران ، بیوروکریسی، فوج، پولیس، سول ڈیفنس، وزراء ، عوامی نمائندے اور تمام میڈیکل عملے کو متحرک ہو جانا چاہیئے تھا لیکن
ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہ آیا۔ حکومت نے اپنے اناج کے گودام کھولے اور نہ ہی خزانے کا منہ۔ یہ خزانے کا منہ آئی ایم ایف کی ادائیگیوں کے لیے تو کھلتا ہے، عوام کے لیے نہیں۔ اس موجودہ نظام میں حکومت کا طرز ِ عمل یہ ہے کہ ایک طرف تو عوام قربانیاں دے کر ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی سعی کررہے ہیں لیکن دوسری جانب حکومت توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے، تنخواہ دار طبقے کے ذاتی انکم ٹیکس میں اضافہ کرتی ہے اور صنعتوں پر 10 فیصد، ون ٹائم سپر ٹیکس لگا کر اربوں روپے صرف منافے کی مد میں کمارہی ہے۔
اعمال سے بھی ظاہر ہے۔ مثال کے طور پر ریاست مدینہ کے ایک ذمہ دار حکمران کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ نے براہ راست نوکری کے انتظام کا معاملہ فرمایا۔ ابن ماجہ نے روایت کیا ہے:
“انصار کا ایک آدمی رسول ﷺ کے پاس آیا اور آپ سےسوال کیا” آپ ﷺنے پوچھا: کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، کپڑے کا ایک ٹکڑا، ایک حصہ جسے ہم پہنتے ہیں اور ایک حصہ جسے ہم (زمین پر) بچھاتے ہیں اور ایک لکڑی کا پیالہ جس سے ہم پانی پیتے ہیں۔ فرمایا: انہیں میرے پاس لے آؤ۔ پھر وہ شخص یہ چیزیں آپﷺ کے پاس لایا اور آپ ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور لوگوں سے پوچھا: یہ کون خریدے گا؟ ایک آدمی نے کہا: میں انہیں ایک درہم میں خریدوں گا۔ آپ نے دو تین بار فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دے گا؟ ایک آدمی نے کہا: میں انہیں دو درہم میں خریدوں گا۔ آپ ﷺ نے وہ چیزیں اُسے دیں اور دو درہم لے کر انصاری کو دیتے ہوئے فرمایا: ان میں سے ایک درہم سے کھانے کا سامان خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ۔
پھر وہ انصار ی کلہاڑی لے کرآپﷺ کے پاس لے آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کلہاڑی پر ایک دستہ لگایا اور فرمایا: جاؤ، لکڑیاں جمع کرو اور اسے بیچو اور میں پندرہ دنوں تک تمہیں نہ دیکھوں۔ وہ آدمی چلا گیا اور لکڑیاں جمع کرکے بیچنے لگا۔ جب اُس نے دس درہم کمالیئے تو وہ آپ ﷺ کے پاس آیا،اس نے ان میں سے کچھ کے کپڑے اور باقی سے کھانا خریدا۔
اس پر رسول اللہﷺنے فرمایا: یہ تمہارے لیے اُس بھیک مانگنے سے بہتر ہے جو قیامت کے دن تمہارے چہرے پر داغ بن کر آتی ہیں۔”
جہاں اسلام کا نظام پروان چڑھتا ہے، وہاں حکمرانوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ امت کی دیکھ بھال کریں جیسا کہ وہ خود اپنی اور اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت اس سے بالکل متضاد صورت حال پیدا کرتی ہے، جہاں حکمران امت کی تکلیفوں کے عوض فائدے اٹھاتے ہیں۔ یہ بے حس حکمران جمہوریت کے کرپٹ نظام کی فطری پیداوار ہیں جنہیں اتار پھینکنا اور اس کی جگہ اسلام کا اپنا نظام حکومت لانا انتہائی ضروری ہے جیسا کہ خلفائے راشدین کے دور میں نافذ تھا۔
کالم نگار: غزالی فاروق