رمضان المبارک کا ماہ مبارک ابھی شروع ہی ہوا تھا، کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک عشرہ مکمل ہو گیا۔ رمضان المبارک سراپا رحمت و برکت کا مہینہ ہے، اس میں باران رحمت کی فضا ابر رحمت بن کر برس رہی ہے، اور اب دوسرے عشرے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ویسے تو سبھی دن اللہ کے ہیں، لیکن اس کی رحمت اپنے بندوں کو نوازنے کے لیے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے۔ اس لیے اس نے کسی شب کو لیلۃالقدر بنا دیا، اور کسی مہینہ کو ماہ مبارک بنا دیا۔ روایت یہ ہے کہ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسرا حصہ مغفرت ہے، اور تیسرا حصہ جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے۔ اس طرح دوسرا عشرہ گویا مغفرت کا عشرہ ہے،
یوں تو ماہ رمضان کے ہر لمحے میں اللہ اپنی رحمت اور مغفرت کی بارش برساتے رہتے ہیں؛ لیکن اس دوسرے عشرے میں گناہوں سے معافی مانگنے والے بندوں کی طرف خصوصی توجہ فرماکر ان کی بخشش فرماتے ہیں، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں، اور اللہ سے بخشش طلب کریں؛ کیوں کہ جو اس مبارک مہینے میں بخشا نہ جاسکا، تو اس کے لیے اور کون سا مہینہ ہوسکتا ہے؟ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کی اس بدعا پر آمین کہی ہے کہ “ہلاک ہو وہ شخص جسے رمضان کا مہینہ ملے، اور وہ اللہ تعالی سے اپنی بخشش نہ کرواسکے”
( المستدرك على الصحيحين، 153:4)
قرآن وحدیث میں توبہ و استغفار کے بہت سے فضائل وفوائد بیان کیے گئے ہیں، ایک مسلمان کو یوں بھی کثرت سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے؛ لیکن رمضان کے مہینے میں تو اس کو اپنا وظیفہ بنالینا چاہیےـ جس طرح ہم کچھ اوقات تلاوت کے لیے نکالتے ہیں، نوافل کے لیے نکالتے ہیں، اسی طرح کچھ اوقات توبہ واستغفار اور اپنے رب کو منانے کے لیے خاص کرنا چاہیےـ عام طور سے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں دے پاتے۔ حالانکہ توبہ واستغفار کا حکم اللّٰہ تعالٰی نے دیا ہے ـ
(1) توبہ واستغفار کے فضائل قرآن میں:
یہاں ہم چند آیات کا ترجمہ نقل کرتے ہیں جن میں توبہ واستغفار کی فضیلت اور اس کے فوائد مذکور ہیں:
1 ـ ایک جگہ قرآن میں فرمایا: “اور اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتے رہو، یقیناً اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے “ـ
(البقره، آيت نمبر: 199)
ایک جگہ فرمایا: ” تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اسی کے سامنے توبہ کرو “
(هود،آيت نمبر: 3)
2 ـ قرآن میں متقیوں کی ایک صفت یہ بتائی گئی ہے کہ “جب ان سے کوئی نامناسب کام ہوجائے، یا کوئی گناہ کر بیٹھیں، تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں”
(آل عمران: 135)
3 ـ جو اپنے گناہوں کی اللّٰہ سے معافی چاہے، اللہ اسے معاف کردیتے ہیں اور اپنی رحمت کی چادر میں اسے ڈھانپ لیتے ہیں ـ قرآن میں آیا ہے: ” جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے استغفار کرلے، تو وہ اللہ کو بخشنے والا، مہربانی کرنے والا پائے گا ”
(نساء، آيت نمبر: 110).
4 ـ قرآن میں استغفار کا یہ فائدہ بتایا گیا ہے، کہ استغفار کرنے سے دنیا میں بارش ہوتی ہے، مال واولاد میں بڑھوتری ہوتی ہے، اور مرنے کے بعد جنت کی نعمتیں حاصل ہوں گی ـ اللہ نے فرمایا:” اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ (اور معافی مانگو) یقیناً وہ بڑا بخشنے والا ہے، (اس استغفار کی برکت سے) وہ آسمان کو تم پر خوب برستا ہوا چھوڑدے گا، اور تمھیں مال اور اولاد میں خوب ترقی دے گا، اور تمھیں باغات دے گا، اور تمھارے لیے نہریں نکال دے گا ” ـ
(نوح، آيت نمبر: 10- 12)
5 ـ استغفار کا ایک فائدہ یہ بھی ہے، کہ اس سے اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے، قرآن میں ہے:” تم اللہ سے استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے ” ـ (النمل، آيت نمبر: 46)
6 ـ استغفار سے اللہ تعالیٰ کی رحمت ومحبت حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: ” تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو، یقین مانو کہ میرا رب بڑی مہربانی والا اور بہت محبت کرنے والا ہے ”
(هود: آيت نمبر:90 )
(2) توبہ و استغفار کی فضیلت حدیث سے:
قرآن کی طرح حدیث میں بھی توبہ واستغفار کی فضیلت آئی ہے ـ
1 ـ ایک حدیث میں رحمت اللعالمینﷺ نے فرمایا: ” جو کثرت سے استغفارکرتا ہے، اللہ تعالی اس کو ہر مصیبت سے نجات دے دیتے ہیں، اور ہر تنگی سے نکال دیتے ہیں، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتے ہیں، جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ”۔
( ابن ماجه:حديث نمبر:3817)
2 ـ ايک دوسری حدیث میں آیا ہےکہ ” وہ شخص بڑا خوش قسمت ہے جس کے نامۂ اعمال میں استغفار پایا جائے ” ـ
(ابن ماجه،حديث نمبر:3816)
3 ـ خود اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (جو کہ بخشے بخشائے ہیں) نے اپنے بارے میں فرمایا: ” میں ایک دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہوں، اور ان کے سامنے توبہ کرتا ہوں“ (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 5957)
4 ـ بہت سے لوگ گناہوں کی کثرت سے ڈر کر مایوس ہوجاتے ہیں؛ لیکن یاد رکھیے جتنا بھی گناہ ہوجائے، اللہ کی بخشش سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی اپنے بندوں سے کہتے ہیں: ” اگر تمھارے گناہ آسمان کی چوٹی کو پہنچ چکے ہوں، پھر بھی اگر تم مجھ سے بخشش طلب کرو گے، تو میں تمھیں معاف کردوں گا”
(سنن الترمذي، حديث نمبر: 3545)
ان آیتوں اور حدیثوں سے معلوم ہوا کہ توبہ واستغفار میں دنیاوی فائدہ بھی ہے اور آخرت کا فائدہ بھی۔ اس لیے ہمیں اس عشرے کو غنیمت جاننا چاہیے، اور اپنے رب کے سامنے پکی توبہ کرنی چاہیے، اپنے گناہوں پر ندامت ہونی چاہیے، آئندہ گناہوں سے باز رہنے کا پکا ارادہ کرنا چاہیے؛ تاکہ اللہ تعالی کی مغفرت کے بعد ہم پاک صاف ہو جائیں ـ
(3) اس عشرے میں کونس دعائیں کثرت سے مانگیں چایئے:
1 ـ اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ، ولا يغفر الذنوب إلا أنت ، فاغفر لي مغفرة من عندك ، وارحمني ، إنك أنت الغفور الرحيم ـ
2 ـ أستغفر الله الذى لا إله إلا هو الحى القيوم وأتوب إليه ـ
3 ـ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ـ
4 ـ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ـ
(4) آب ذر سے سے عمل کرنے والی روایت:
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ میں دین ودنیا کی بھلائی کی کچھ باتیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پوچھ لو جو پوچھنا چاہتے ہو، اس نے عرض کیا یارسول اللہ!
1 ـ میں چاہتا ہوں کہ سب سے زیادہ جاننے والا ہو جاؤں، آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرتے رہوـ
2 ـ اس نے عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ سب سے زیادہ غنی ہوجاؤں ـ آپﷺ نے فرمایا: قناعت اختیار کرو ـ
3 ـ اس نے پوچھا: میں چاہتا ہوں کہ میں اچھا بن جاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: لوگوں سے اچھائی کروـ
4 ـ عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ انصاف کرنے والا بن جاؤں ـ فرمایا: تم دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو ـ
5 ـ عرض کیا: میں چاہتاہوں کہ میں اللہ کا خاص بندہ بن جاؤں ـ فرمایا: اللہ تعالی کی یاد کثرت سے کرو ـ
6 ـ عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ میرا ایمان کامل ہوجائے ـ فرمایا: اپنے اخلاق اچھے کرلو ـ
7 ـ عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے تابعداروں میں سے ہوجاؤں ـ فرمایا: اللہ کے فرائض ادا کرتے رہو ـ
8 ـ عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ قیامت میں نور میں اٹھوں ـ فرمایا: کسی پر ظلم نہ کرو ـ
9 ـ عرض کیا: میں چاہتاہوں کہ میرے گناہ کم ہوجائیں ـ فرمایا: خوب استغفار کیا کرو ـ
10۔ عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ میرے رزق میں وسعت پیدا ہو ـ فرمایا: ہمیشہ طہارت (پاک صاف) رہو ـ
11 ـ عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے غضب سے بچ جاؤں ـ فرمایا: تم کسی پر غصہ نہ کرو ـ
12 ـ عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دوستوں میں سے ہوجاؤں، فرمایا: جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں، اس سے محبت رکھو، اور جس سے اللہ اور اس کے رسول دشمنی رکھتے ہیں،اس سے دشمنی رکھو ـ
(5) رمضان کی بڑی کامیابی کیا ہے؟
روزے کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ تقوی حاصل ہوجائے؛ لیکن تقوی ہے کیا چیز؟ تقوی نام ہے گناہوں سے بچ کر زندگی گزارنے کا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کعب احبار رضی اللہ عنہ سے پوچھا “تقوی کیا ہے؟ انھوں نے پوچھا: کیا آپ کا گزر کبھی ایسے راستے سے ہوا ہے، جس کے دونوں طرف کانٹے دار جھاڑیاں ہوں؟ فرمایا: ہاں ـ پوچھا: پھر آپ کیسے گزرے؟ فرمایا: دامن بچاکر بدن سکیڑ کر، تاکہ کوئی کانٹا نہ چبھ جائے۔ کعب احبار رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی تقوی ہے ـ یعنی دنیا میں اس طرح زندگی گزاریں، کہ ہرچیز سے ڈرتے رہیں اور بچتے رہیں، اور چھوٹے گناہ کو بھی حقیر نہ سمجھیں۔
لیکن یہ تقوی حاصل تب ہوگا، جب ہماری زندگی قرآن وسنت کے مطابق گزرے گیـ تقوی اس وقت حاصل ہوگا، جب ہم حرام کھانے، حرام پینے، حرام پہننے اور حرام باتوں سے دوررہیں گے؛ کیوں کہ اگر حرام چیزیں ہماری زندگی میں ہوں گی، تو نہ ہماری عبادت قبول ہوگی، اور نہ کوئی دعا قبول ہوگی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا: ” بہت سے پراگندہ حال اور پراگندہ بال شخص آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں یارب یارب! ؛ لیکن اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا پہننا حرام، پھرایسے لوگوں کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟”
( صحيح مسلم، حديث نمبر: 1692)
ایک حدیث میں فرمایا: ” جس انسان کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو، وہ جہنم کے زیادہ لائق ہے ” ـ ( التلخيص الحبير: حديث نمبر: 2426)
ایک حدیث میں فرمایا ” جو چیز تمھیں شک میں ڈالے، اسے چھوڑکر وہ چیز اختیار کرو جو تمھیں شک میں نہ ڈالے ”
( سنن الترمذي: حديث نمبر: 2518)
ان حدیثوں سے معلوم ہوا، کہ تقوی حاصل کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ حرام چیزوں سے بچنا ضروری ہے؛ بلکہ جو چیز مشکوک ہو، اس سے بچنا بھی ضروری ہے ـ
(6) تقوی کے حصول کا آسان طریقہ:
ہم نیچے ترتیب سے وہ باتیں بیان کرتے ہیں، جو تقوی کی صفت کو مکمل کرنے والی ہیں۔
1 ـ غیبت سے بچیے ـ قرآن میں ہے: ” ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ”
( الحجرات، آيت نمبر: 12)
2 ـ بدگمانی سے بچیے ـ قرآن میں ہے: ” اے ایمان والو! بدگمانیوں سے بچو؛ کیوں کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں ” ـ
(الحجرات، آیت نمبر: 12)
3 ـ دوسروں کا مذاق نہ اڑائیں ـ قرآن میں ہے: ” ایک گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے “ـ
(الحجرات، آیت نمبر: 11)
4 ـ حرام کی طرف نہ دیکھیے ـ قرآن میں آیا ہے: ” اے پیغمبر! مومنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں منع کی ہوئی چیزوں سے بند رکھیں ” ـ
(النور:آيت نمبر: 30)
5 ـ جب بھی بولیں حق بات بولیں ـ قرآن میں ہے: ” اور جب تم بات کرو، تو انصاف کرو ” ـ
(الأنعام:آيت نمبر: 152)
6 ـ اپنے مال کو مستحقین پر خرچ کیجیے، ناجائز اور باطل جگہوں پر خرچ نہ کریں ـ قرآن میں ہے: ”اللہ تعالٰی کے نیک بندے جب خرچ کرتے ہیں، تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں، اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں ”
( الفرقان:آيت نمبر: 67)
(یاد رکھیے! اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا، اسراف اور فضول خرچی ہے، اور اس کی اطاعت میں خرچ نہ کرنا بخیلی ہے)
7 ـ بلند مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش نہ کریں ـ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” آخرت کا گھر (جنت) ہم ان لوگوں کو دیتے ہیں، جو دنیا میں بڑے بڑے مرتبوں کی خواہش نہیں کرتے، اور نہ فساد کرتے ہیں ” (القصص:آيت نمبر: 83)
8 ـ پانچوں وقت کی نماز ادا کیجیے ـ قرآن میں ہے: ” نمازوں کی حفاظت کرو، خاص کر درمیانی نماز (عصر) کی، اور اللہ کے تابعدار بنو ”
(البقرة: آيت نمبر: 238)
9 ـ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کیجیے اور مسلمانوں کے ساتھ شامل رہیے ـ فرمایا: ” اور یقیناً یہ میری سیدھی راہ ہے، تم اس ہر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، ورنہ وہ راہیں تم کو اللہ کی (سیدھی) راہ سے جداکردیں گی ” (الأنعام:آیت نمبر: 153)
اگر ہم نے ان چیزوں کو اپنی زندگی میں اتارلیا، تو تقوی ہمیں ضرور حاصل ہوگا، (انشاءاللہ) جو روزے کا بنیادی مقصد ہے ـ اللہ تعالی اپنے فضل سے ہمیں تقوی والی زندگی نصیب فرمائے، اور مغفرت کے اس عشرے میں ہمارے گناہوں کو معاف فرمائےـ اور ہمیں اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے، جو کہ محبت الہی اور گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے، ارشاد ہے:
” اے پیغمبر آپ کہہ دیجیے! کہ اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو، تو میری اتباع کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمھارے گناہ معاف فرمادے گا، اور اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے ” ـ
(آل عمران، آیت نمبر: 31)
اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، اور رمضان کو اس کی شان و فضیلت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (امین یا رب العالمین)
مفتی نور حسین افضل
اسلامک اسکالر، مصنف، کالم نویس
صدر: پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (مشرق وسطی)