کویت اردو نیوز ، 13 اکتوبر 2023: بھارتی ریاست آسام میں ایک ایسا انوکھا اسکول ہے جہاں طلباء سے پیسے نہیں بلکہ پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر بیکار اشیاء وصول کی جاتی ہیں۔
‘اکشر’ کے نام سے یہ اسکول پاموہی گاؤں میں 32 سالہ مزین مختار اور ان کی اہلیہ پرمیتا شرما نے قائم کیا ہے۔
جوڑے نے یہ اسکول پسماندہ علاقے کے بچوں میں علم کی روشنی پھیلانے کے لیے قائم کیا تھا لیکن بعد میں ان کا مقصد مقامی آبادی میں ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں شعور بیدار کرنا اور اس حوالے سے اقدامات کرنا تھا۔
دراصل گاؤں کے لوگ اپنے گھروں میں کھانا پکانے کے لیے بڑی مقدار میں پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلے جلاتے تھے اور ان سے اٹھنے والے دھوئیں کی وجہ سے ایک طرف فضا آلودہ ہو رہی تھی تو دوسری طرف بیٹھے بیٹھےط اس دھوئیں کی وجہ سے کلاس رومز میں بچے کھانسی اور سینے کے انفیکشن میں مبتلا تھے۔
گاؤں کی زیادہ تر آبادی قریبی پتھر کی کانوں میں محنت مزدوری کرتی ہے۔ گاؤں کے بچے بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ کام پر جاتے تھے اس لیے بہت کم والدین اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے اسکول بھیج رہے تھے۔
مزین مختار نے ایک برطانوی اخبار کے نمائندے کو بتایا کہ جب ہم نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے گھر میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی بوتلیں بچوں کو بھیجنا شروع کریں تو شروع میں کسی نے ہماری بات نہیں سنی۔ جب میری اہلیہ نے انہیں بتایا کہ ہم فیس لینا شروع کر رہے ہیں تو ان کے پاس دو راستے ہیں، یا تو وہ نقد ادائیگی کریں یا پلاسٹک کی بیکار اشیاء کی صورت میں۔
مزین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد تمام والدین نے بچوں کے ساتھ پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلے وغیرہ بھیجنا شروع کیے، اس کے علاوہ والدین سے یہ تحریری وعدہ بھی لیا گیا کہ وہ پلاسٹک کی اشیاء نہیں جلائیں گے۔
بچوں میں فضائی آلودگی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اسکول میں پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جاتی ہے جس کے دوران انہیں سولر پینل لگانے کے ساتھ کارپینٹری کا کام اور بجلی کے آلات کی مرمت سکھائی جاتی ہے۔
اسکول کے آغاز میں بچوں کی تعداد 20 تھی جو بتدریج بڑھ کر 110 ہوگئی ہے۔ بچوں کی عمریں چار سے 15 سال کے درمیان ہیں اور انہیں سات اساتذہ پڑھاتے ہیں۔
ہم ہر طالب علم کو اپنے ماحول کی ذمہ داری لینا سکھاتے ہیں، پرمیتا شرما کہتی ہیں، ہر طالب علم سے ہر ہفتے 25 پلاسٹک کی اشیاء بطور فیس لی جاتی ہیں۔
اس طرح ہم ماہانہ تقریباً 10 ہزار پلاسٹک کی اشیاء جمع کرتے ہیں جن سے ماحول دوست اینٹیں بنائی جاتی ہیں جنہیں بعد میں تعمیرات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
پرمیتا شرما نے کہا کہ ان کی پہل کی وجہ سے گاؤں اور اسکول کے اردگرد کا ماحول جو پلاسٹک جلنے سے دھوئیں اور بدبو سے بھرا ہوا ہوتا تھا، اب صاف ہو گیا ہے۔