کویت اردو نیوز : ایسی کسی بھی حس کو عام طور پر چھٹی حس کہا جاتا ہے۔ جسے ہماری پانچ حسیں مل کر محسوس نہیں کر سکتیں، ہمارا دماغ نام نہاد چَھٹی حس کی مدد سے محسوس کر سکتا ہے۔ چَھٹی حس جادو یا ٹونہ نہیں ہے۔ اسے وجدان اور بصیرت بھی کہا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فطری علوم، فنون لطیفہ اور نفسیات سبھی ہماری چھٹی حس کو تقویت دیتے ہیں۔ نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے نیورو سائنٹسٹ اور ماہر نفسیات جوئل پیئرسن کا کہنا ہے کہ ہمارے ذہن میں جو کچھ بھی چلتا ہے وہ دراصل پورے ماحول سے معلومات کا تعامل ہوتا ہے۔ دن کا مخصوص وقت، روشنی کا معیار، مختلف چیزوں کے سائے، چلنے کی رفتار اور بہت سی نہیں تو سینکڑوں دوسری چیزیں ایک خاص وقت میں ہمارے ذہن میں ماحول پیدا کرتی ہیں۔
جوئل پیئرسن نے نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی میں ‘فیوچر مائنڈز لیب’ قائم کی ہے۔ اس میں وہ شعور کے حوالے سے تحقیق اور تجربات میں مصروف ہے۔ وہ خاص طور پر اس بات کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ ہمارے لاشعور میں ذخیرہ شدہ معلومات ہماری فیصلہ سازی، احساسات اور اعمال کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔ اور ہمارے جذبات اس سارے عمل کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں۔ وہ اسے سائیکو فزکس کہتے ہیں، یعنی فطری علوم اور نفسیات کا ملاپ۔
اسے وجدان بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اہم معاملات کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جیسے ہوا میں کسی چیز کو سونگھ کر فیصلہ کرنا۔ ہم درست پیشین گوئیاں کر سکتے ہیں اگر ہمیں لگتا ہے کہ ایسے ہی معاملات سامنے آ رہے ہیں جنہیں ہم اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ جوئل پیئرسن 25 سال سے اس تصور پر کام کر رہے ہیں۔
جوئل پیئرسن کا کہنا ہے کہ ‘ہمارا دماغ جو کچھ ہم دیکھتے، سیکھتے اور سمجھتے ہیں اس کی بنیاد پر نتائج اخذ کرتے ہیں اور اس طرح ہم جو کہتے ہیں اسے پیشین گوئی کہتے ہیں۔ ہم جس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے اس کا ایک جامع تجزیہ ہمارے ذہن کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد کرتا ہے۔
جوئل پیئرسن کا کہنا ہے کہ یہ خون، ریشوں اور خلیوں کو جانچنے اور سمجھنے کا معاملہ نہیں ہے۔ اس میں رویے اور اعمال کو سمجھنا شامل ہے۔ الجھن، بے چینی، ڈپریشن یا جو کچھ ذہن میں پیدا ہوتا ہے اسے سمجھنا ہے۔
جوئل پیئرسن کا مقصد نہ صرف وجدان کو سمجھنا ہے، بلکہ یہ جاننا بھی ہے کہ یہ کیسے ہوتا ہے، ہم اسے کیسے استعمال کرتے ہیں، اور ہم اسے کیسے بہتر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ وجدان سیکھا جا سکتا ہے، موافقت پذیر ہے، اور لاشعوری معلومات پر انحصار کرتا ہے۔