جب بھی قومی سطح پر کسی چیز کافیصلہ ھوتا ھے عموما بغیر کسی مناسب مشاورت کے کیا جاتا ھے یا بہت جلدی میں اور اس فیصلے سے
کتنے لوگ متاثر ھوتے ہیں یہ بھی خیال نہیں رکھا جاتا .امریکن کالج آف فنانشل سروسز کے مطابق 6 وجوہات ہیں جو ریٹائرمنٹ کی عمر ھے ھوتے وقت اثرانداز ھوتی ہیں
- گھر کے حالات
- جسمانی حالات
- خطے کے حالات
- نفسیاتی عوامل اور حالات
- عمر اور زندگی کی ملکی سطح پر زندہ رہنے کی توقع
- ملکی حالات
عمومی طور پر صحت، مالی حالات، کام کی اچھی یا بری کنڈیشن، زندگی اور کام کرنے کی خواہش ، گھر کی ذمہ داریاں اور دوسرے مسائل، کام کے لوکل، ریجنل، اور ملکی حالات اور کام کے حساب سے فٹنس کے مسائل صاف ظاہر ھے عمومی طور پر پاکستان میں زندہ رہنے کی شرح امید تقریبا 67 سال ھے ، جو برطانیہ میں 80 سال ھے ، امریکہ میں 78 ،کینیڈا میں 82 ، چین میں 76، جاپان میں 85 اور اٹلی میں 83 سال ھے ۔ جاپان اس معاملے میں سب سے آگے ہے اور اس حد تک کہ ان کے ہاں پیدائش اور مرنے میں کمی کی وجہ سے امیگریشن کرکے لوگوں کو دوسرے ممالک سے لانے کا سوچا جارہا ھے اس کے علاوہ اگر علاقے کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کا سوچا جائے تو کینیڈا میں علاقے کے حساب سے لوگوں کی کمی ھے اسی طرح آسٹریلیا کی مثال ھے اور جاپان کی بھی ۔
اب میں برطانیہ کے ریٹائر منٹ کی صورتحال، قانون پر بات کرتے ہیں اور پھر اس شور پر جو پاکستان میں خبروں کو پھیلا کر مچایا جاتا ھے برطانیہ میں پہلے ریٹائرمنٹ کی عمر خاتون کے لئے ساٹھ سال تھی اور مردوں کے لئے 65 سال جو 2010 تک رہی پھر 2010 سے 2020 کے دوران اس کو برابر کیا جانا تھا جو ھوگیا اور اب 66 سال ھے اور آنے والے سالوں میں اس نے بڑھنا ھے اور اگلے آنے والے سال اس کو 67، 68 پر لے جائے گی۔ کرونا کی وبا کے بعد ممکن ھے دوبارہ قانون بنے اور کم یا زیادہ ھو سکتی ھے ۔ لیکن اس کی وجوہات میں عمر لمبی ھونے کا عنصر ھے کہ اچھی میڈیکل سہولیات، رہائشی ضروریات اور آسائش زندگی بہتر ھونے کی وجہ لوگوں کی عمر بڑھ رہی ہیں ہر ملک اپنی اپنی ضروریات ،معیشت اور لوگوں کی جسمانی ضرورت کو خیال کرکے تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔
اب برطانیہ میں اگرچہ کوئی بھی سرکاری، نیم سرکاری ملازم یا پرائیویٹ یا بزنس کرنے والا ریٹائرمنٹ قانون کے حساب سے 67 سال کے بعد قومی پنشن کا مستحق بنتا ہے لیکن اگر وہ 55 سال کے بعد ریٹائرمنٹ لینا چاہے تو اس کو اجازت ھوتی ہے ۔ یہاں بہت ساری پرائیویٹ ، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں نے اپنی یونین، اپنی خودمختار تنظیموں کے ذریعے سیکنڈ پنشن اپنے ملازمین کے لئے متعارف کروائی ھوئی ھے کیونکہ سرکاری ،نیم سرکاری یا پرائیوٹ بغیر کسی وجہ کے 67 سال سے پہلے سرکاری پنشن وصول نہیں کرسکتا/سکتی۔ ہاں البتہ وجوہات کی بنیاد پر اگر کوئی بیمار ھے، ایکسیڈنٹ یا کوئی اور وجہ سے 55 سال کے بعد ریٹائرمنٹ لی جاتی ہے تو ان کے لئے مخصوص مالی فوائد رکھے گئے ہیں تاکہ اپنی کمزوری یا بیماری کی وجہ سے گھر بیٹھ رہنے والا کسی کا محتاج نہ ھوجائے اور اسی طرح 55 سال کے بعد اگر کوئی بھی ریٹائرمنٹ لیتا ھے تو اس کو پروائیویٹ پنشن کا لم سم اور ماہانہ شروع ھو جاتی ھے جب تک کہ وہ 67 سال کی عمر میں پہنچ کر قومی پنشن کا بھی اھل نہ ھو جائے اب پاکستان کی بات کرتے ہیں اس کی زندگی کی expectancy ویسے ہی باقی ممالک سے تقریبا 15 سال کم ھے یعنی 67 سال ھے تو اس حساب سے اس کی پنشن کی عمر متعین کرنا پڑے گی لیکن یہ عمر کی شرح پہلے سے بڑھی ہے گھٹی نہیں اس لئے کسی کی 60 سے 55 سال کرنا کسی بھی طریقہ سے جواز یا سینس نہیں بناتی کہ عمر کا معیار تو بڑہ گیا ھے لیکن ریٹائرمنٹ کی عمر کم کر دی جائے ۔ البتہ کچھ اداروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بذات خود ایک ٹیکنیکل مرحلہ ھے جیسے کسی نے سب میرین میں کام کرنا ھو یا ایف 16 چلانا ھو۔ یا اس طرح کی کوئی اور ٹیکنیکل جاب ھو۔ البتہ آبادی بڑھنے اور اس کی وجہ سے جابز کے مواقع کم اس لئے کہ لوگ ریٹائرڈ نہیں ھو رہے تو نوجوان فارغ ہیں اس میں اور بندوبست کرنا ضورری ھے۔ آبادی کا کنٹرول ، پراجیکٹ کا بڑھانا جس میں نوکریاں اور نکالی جائیں۔ اور پھر جو بھی فیصلہ کرنا ھو اس کو آنے والی نوکریوں یا لوگوں پر لاگو کرنا ھو تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ راتوں رات تبدیل کرکے پہلے سے کام کرنے والوں کو ڈسٹرب کیا جائے بلکہ اس میں آبادی کی عمر کو دیکھ کر فیصلے کئے جائیں اور اس میں ایک سالہ، دوسالہ ،پانچ سالہ اور دس سالہ منتقلی کا منصوبہ بنایا اور انتظام کیا جائے تاکہ کوئی ورکر بھی کسی وجہ متاثر نہ ھوں
دکاندار، چھوٹا اور بڑا کاروباری پاکستان میں دوسرے ممالک کی نسبت محروم ھے جو درست نہیں ھے۔ حکومت اس سے رجسٹریشن سے لیکر ٹیکس، مینوفیکچرنگ ٹیکس، ویلتھ ٹیکس ، انکم ٹیکس وغیرہ وغیرہ لینا چاہتی ہے ملنا نہ ملنا مختلف بات ہے۔ جس طرح ٹیچر، کلرک، سپاہی، فوجی،ڈاکٹر اور تمام سرکاری ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد لم سم اور ماہانہ پنشن کے حق دار ہیں اسی طرح ریڑھی والا سے لیکر چھوٹا کاروباری یا بڑا اس کو بھی ایک خاص عمر کی حد کے بعد کسی کا محتاج نہ کیا جائے بلکہ پنشن کا حق دار سمجھا جائے ۔ اسی طرح کچھ ملازمین جن میں خاص طور پر پرائیوایٹ سکولوں کے اساتذہ ہیں ان کو پنشن نہیں ملتی تو وہ ہر وقت اس خوف میں کام کرتے ہیں کہ اگر کام بند ھوگیا تو وہ اپنے بچوں یا کسی اور بھائی یا رشتہ دار کے محتاج ھو جائیں گے ۔ تمام پرائیویٹ کمپنیوں , سکولوں ،فیکٹریوں غرضیکہ تمام کاروباری اداروں کو قانون کے تحت پابند کیا جائے کہ وہ ریٹائرمنٹ کو پہنچنے والے ملازمین کی کئیر کرنے کے پابند ہو۔ اسی طرح اگر کوئی چند سال ایک کمپنی میں کام کرکے دوسری کمپنی کو جوائن کر لے تو رئٹایرمنٹ کا ایسا سنٹرل سسٹم ھو کہ تمام کمپنیاں مل کر اس فرد کو پنشن POT میں اپنا حصہ ڈالیں تاکہ ایک بزرگ آدمی DIGNITY اور احترام کے ساتھ بقیہ زندگی گزار سکے
منصور حسن ہاشمی۔ مانچسٹر