کویت اردو نیوز ، 2 اکتوبر 2023 : اسرائیل کے مغربی کنارے کے شہر نابلس میں حضرت یوسف علیہ السلام کی مبینہ قبر میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 5 یہودیوں پر پتھر برس پڑے ۔
جب مذکورہ یہودی مبینہ طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر میں داخل ہوئے تو مشتعل ہجوم نے ان پر حملہ کردیا جس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کی پولیس کو انہیں بچانا پڑا۔ فلسطینیوں کے ہاتھوں ایک اسرائیلی معمولی زخمی ہوا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ مبینہ قبر فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول علاقے میں واقع ہے جو کہ اسرائیلی شہریوں کی حد سے دور ہے۔
اسرائیلی فوج کی مدد سے حضرت یوسف کے اس مبینہ مقبرے میں باقاعدگی سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پیر کو داخل ہونے کی کوشش بغیر کسی فوجی مدد کے ناکام بنا دی گئی۔
فلسطینی پولیس نے یہودیوں کو ہجوم سے چھڑا کر قریبی اسرائیلی فوج کی چیک پوسٹ کے حوالے کر دیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر پر یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جھگڑا کیوں؟
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس کا ایک مقام فلسطینیوں اور صیہونیوں کے درمیان تنازع کا باعث ہے۔ ماضی میں یہ جگہ متنازعہ نہیں تھی لیکن گزشتہ 55 سالوں سے یہ جگہ صہیونیوں کے ساتھ تنازعات کا باعث بنی ہوئی ہے۔
غاصب صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ نابلس میں وہ مقام جسے وہ "مقام یوسف” کے نام سے جانتے ہیں، جلیل القدر پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام کا مزار ہے۔ تاہم فلسطینی انہیں ایک بزرگ ’’یوسف ڈویکت‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر حضرت یوسف علیہ السلام کا کوئی مزار نہیں ہے اور اس جگہ پر صہیونیوں کا دعویٰ صہیونی آبادکاری کی داستان کا محض ایک حصہ ہے۔
یہ مقام فلسطینیوں اور صیہونیوں کے درمیان تنازعہ کا باعث بنا ہوا ہے اور اس وقت فلسطینی اتھارٹی کے انتظامی کنٹرول میں ہے، لیکن اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں اس پر قبضہ کر لیا تھا۔
اسرائیلی قبضے کے بعد یہ جگہ یہودی آباد کاروں کا مرکز ہے اور ہر روز یہاں آباد کار تلمودی مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
1986ء میں قابض اسرائیلی ریاست نے مقام یوسف میں یہودیوں کا ایک مذہبی سکول قائم کیا جس میں تورات پڑھائی جاتی تھی۔
1990 میں مقبرے کو ایک فوجی چوکی میں تبدیل کر دیا گیا اور اسے یہودی وزارت مذہبی امور کے حوالے کر دیا گیا۔
یہودیوں کا موقف کیا ؟
یہودیوں کا مذہبی موقف یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی لاش کی باقیات مصر سے لا کر نابلس میں بلاتہ کے مقام پر دفن کی گئیں۔ اس تناظر میں یہودی صفر تکوین کا حوالہ دیتے ہیں۔
یہودیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو وصیت کی تھی کہ وہ اپنی باقیات کو شہر شکم کے مشرق میں لے جائیں اور انہیں وہاں دفن کریں۔ یہ کنعانی شہر نابلس ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ مقبرہ یہودیوں کی عبادت کا مرکز ہے۔
یہودی آدھی رات کو وہاں آتے ہیں اور اگلے دن طلوع آفتاب کے بعد چلے جاتے ہیں۔
تاہم، مورخین اس یہودی دعوے پر اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نابلس میں مقبرہ 200 سال سے زیادہ پرانا نہیں ہے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام کے دو سو سال بعد بھیجا گیا، ان کی آخری آرام گاہ مصر میں بتائی جاتی ہے، لیکن ان کی قبر کا کوئی نشان نہیں ہے۔
اس کے علاوہ حضرت یوسف علیہ السلام کے مقام پر حضرت یوسف علیہ السلام کا مزار نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ قبر اسلامی طرز تعمیر پر تعمیر کردہ مزار میں ہے۔ اس کے اوپر ایک گنبد ہے اور اس کو کچھ مسلمان طبقے اپنے مردے دفنانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
یہودی بیانیہ کی تردید
بعض تاریخی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ خلافت عثمانیہ کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ غالباً یہ قبر اور مزار 1904 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
یہ قبر یوسف دیوکات کی ہے جو ایک بزرگ اور نیک شخص ہے۔ وہ ایک عالم دین تھے اور اسلام کی تعلیمات کو پھیلاتے تھے۔
یوسف دوکات کی موت کے بعد، خلافت عثمانیہ نے خراج عقیدت کے طور پر ان کا مقبرہ تعمیر کیا۔ کچھ صوفی وہاں عبادت کرتے رہے۔ یہ مزار فلسطینی محکمہ اوقاف میں ایک مسجد کے طور پر درج ہے۔
مذہب کی آڑ میں سیاسی مقاصد
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی تاریخ کے استاد اور النجاہ نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر امین ابوبکر نے کہا کہ تمام شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ قبر حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری آرام گاہ نہیں ہے۔ یہ ایک اسلامی وقف جگہ ہے اور اس کے ریکارڈ بھی خلافت عثمانیہ میں موجود ہیں۔ اس لیے یہ یہودیوں کا مذہبی مقام نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطین اور بلاد شام میں ایسے بے شمار مقامات ہیں۔ صرف فلسطین میں ایسے 300 تاریخی مقامات ہیں۔ روایات کے مطابق مقام یوسف میں مقبرہ صرف 200 سال پرانا ہے۔
فلسطینی اسکالر کا کہنا ہے کہ آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور نبی کی آخری آرام گاہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ان کے ناموں والی قبریں ان کی آخری آرام گاہوں کا حتمی ثبوت نہیں ہیں۔
امین ابوبکر نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کی وصیت پر ان کی باقیات مصر سے فلسطین منتقل کی تھیں لیکن ان کی قبر کےمقام کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا تعین کرنا ممکن ہے۔