کویت اردو نیوز : جنوبی کوریا کی نجی سبزی پیکنگ کمپنی میں کام کرنے والے روبوٹ نے غلطی سے ملازم کو کچل دیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی کوریا کی روبوٹکس کمپنی میں کام کرنے والا 40 سالہ ملازم روبوٹ میں تکنیکی خرابی کی جانچ کر رہا تھا۔
روبوٹ سبزیوں کے ڈبوں کو اٹھا کر چلتی بیلٹ پر رکھتا تھا لیکن اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ جس پر روبوٹ کو چیک کرنے کے لیے ملازم کو بلایا گیا۔ ملازم روبوٹ کے سینسر کا معائنہ کرنے لگا۔
اسی وقت روبوٹ حرکت میں آیا اور ملازم کو سبزیوں کا ڈبہ سمجھ کر اسے اٹھایا اور بیلٹ پر مارا اور کچل دیا۔ وہاں موجود دیگر ملازمین بمشکل اپنے ساتھی کو روبوٹ کے چنگل سے چھڑانے میں کامیاب ہو سکے۔
ملازم شدید زخمی ہو گیا جسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے طبی امداد دی گئی تاہم چہرے اور سینے پر شدید چوٹ آنے کے باعث وہ جانبر نہیں ہو سکا۔
روبوٹ کے ہاتھوں پہلے انسان کا قتل کب ہوا ؟
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ روبوٹ کے ہاتھوں انسان کا پہلا قتل آج کے دور میں نہیں بلکہ تین دہائی قبل 1979 میں ہوا تھا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق انسانی قتل کا یہ انوکھا واقعہ مشی گن کے شہر فلیٹ راک میں 25 جنوری 1979 کو اس وقت پیش آیا جب رابرٹ ولیمز نامی فیکٹری ورکر روبوٹ کا شکار ہو گیا۔
رپورٹ کے مطابق فورڈ موٹر کمپنی نے گاڑیوں کے مخصوص پرزوں کی گنتی کے لیے پانچ منزلہ ، ایک ٹن وزنی ایک بازو پر مشتمل روبوٹ تعینات کیاتھا، لیکن یہ روبوٹ مسلسل غلط ریڈنگ دے رہا تھا۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 25 جنوری 1979 کو فیکٹری کے 25 سالہ ملازم رابرٹ ولیمز کو کمپنی کے کاسٹنگ پلانٹ میں شیلفنگ یونٹ میں آٹو پارٹس گننے کے لیے بھیجا گیا۔
جیسے ہی ولیمز پرزے گننے کے لیے اوپر چڑھے، مشین شروع ہوئی اور اس کے ایک ٹن بازو نے کارکن کے سر کو کچل دیا، جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔
لیکن مشین جذبات سے عاری ہے، اس لیے مذکورہ قاتل روبوٹ نے اپنا کام جاری رکھا اور ولیمز کی لاش آدھے گھنٹے تک وہیں پڑی رہی جب فیکٹری کے باقی کارکن واپس آئے تو انہوں نے اپنے ساتھی کو مردہ پایا ۔
رابرٹ ولیمز کے اہل خانہ نے روبوٹ بنانے والی کمپنی لیٹن انڈسٹریز پر مقدمہ دائر کیا اور 10 ملین ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کیاتھا۔