کویت اردو نیوز 14 مئی: جمعرات کو افغانستان کے ایک سرکاری ذریعے نے بتایا کہ مغربی افغان شہر ہرات میں طالبان حکام نے مردوں اور عورتوں کو ریستورانوں میں ایک ساتھ بیٹھنے سے روک دیا، چاہے وہ شادی شدہ ہی کیوں نہ ہوں۔
افغانستان ایک قدامت پسند ملک ہے لیکن مردوں اور عورتوں یا فیملی کا ریستورانوں میں اکٹھے بیٹھنا معمول کی بات ہے خاص طور پر ہرات جو ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں نسبتاً ترقی پسند سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اگست میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے شریعت کی اپنی سخت تشریح کے مطابق بتدریج عورتوں کی آزادی کو محدود کر دیا ہے اور صنفی امتیاز کی شکلیں مسلط کر دی ہیں۔ ہرات میں فضیلت اور برائی کی روک تھام کی وزارت کے اہلکار ریاض اللہ سیرت نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکام نے "ریستورانوں میں مردوں اور عورتوں کو الگ کرنے کا حکم دیا ہے۔” ریستوران کے مالکان کو
اس اقدام کے بارے میں زبانی طور پر مطلع کر دیا گیا ہے جس کا اطلاق "شوہر اور بیوی” پر بھی ہوتا ہے۔ ایک خاتون جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ بدھ کے روز ریسٹورنٹ میں گئی تھیں لیکن مینیجر نے انہیں "الگ بیٹھنے” کو کہا اور
وہ کھانا کھائے بغیر چلی گئیں۔ ایک ریستوراں کے منیجر صفی اللہ نے تصدیق کی کہ انہیں اس اقدام کو نافذ کرنے کے احکامات موصول ہوئے ہیں۔ "ہمیں اس حکم کی تعمیل کرنی ہوگی لیکن اس سے ہمارے کاروبار پر منفی اثر پڑے گا” انہوں نے کہا کہ اگر پابندی جاری رہی تو ان کے پاس ریستوران کو بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ سیرت نے کہا کہ وزارت نے ہرات کے عوامی پارکوں میں مردوں اور عورتوں کی علیحدگی بھی نافذ کی ہے اور خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ دورے کے دن مقرر کیے ہیں۔
شہر کے حکام نے اس ماہ کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ڈرائیونگ سکولوں سے کہا ہے کہ وہ خواتین کو لائسنس جاری کرنا بند کر دیں۔ اقتدار میں واپس آنے کے بعد طالبان نے ابتدائی طور پر 1996 اور 2001 کے درمیان ان کی سابقہ حکومت کے مقابلے جب خواتین کو تمام حقوق سے محروم رکھا گیا تھا میں زیادہ لچکدار ہونے کا وعدہ کیا تھا لیکن
اب وہ اپنے وعدوں سے مکر گئے ہیں۔ خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے خارج کر دیا اور انہیں سیکنڈری سکولوں میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے یہاں تک کہ ان کی نقل و حرکت پر بھی پابندیاں لگا دیں گئی ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے طالبان نے ایک حکم نامہ بھی جاری کیا تھا جس میں خواتین کو سرعام نقاب پہننے کا پابند کیا گیا تھا۔