جیسے ہی ارب پتیوں نے دبئی میں بڑے بڑے ولا بنائے ، شہر بینکاروں ، ایگزیکٹوز اور سرمایہ کاروں سے بھرنے لگا، یہاں کی رہائشی غيداء کو اس کے کرائے کے مکان سے بے دخل ہونا پڑا۔ مالک مکان نے 3,000 ڈالر ماہانہ کرایہ جو وہ اور ان کا شوہر مل کر ادا کر رہے تھے، دوگنا کردیا۔
اس جوڑے کو پہلے اپنا گھر چھوڑنے کو کہا گیا اور بتایا گیا کہ مالک اپنے خاندان کے ساتھ یہاں منتقل ہونا چاہتا ہے۔ تاہم اس کے فورا بعد مالک مکان نے 6,000 ڈالر ماہانہ کرائے کا اشتہار دیا۔ غيداء اب کرائے کے ضوابط کی خلاف ورزی کے تحت مالک مکان پر مقدمہ کر رہی ہیں۔
"میں اب سنتی ہوں کہ میری جیسے ہی اور کرایہ داروں کا حال بھی شدید پسماندہ ہے” ، غيداء نے کہا، جو اس تنازعہ کے دوران اپنا مکمل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔
یہ فیس بک گروپوں، کیفے اور کام کی جگہوں پر بکھری درجنوں دیگر لوگوں کی طرح کی کہانی ہے، اور دبئی کے تازہ ترین بدلاؤ کی عکاسی کرتی ہے: جو بے تحاشا مواقع کی سرزمین ہے، اگرچہ اس میں داخلے کے لیے کچھ رکاوٹیں ہیں جو اب نمایاں طور پر زیادہ ہو گئی ہیں۔
دبئی کی شناخت ایک بڑی حد تک ٹیکس سے پاک طرز زندگی رہی ہے جو بہت سے کمانے والوں کو اپنے ملک میں میسر نہیں۔ لیکن کرپٹو کروڑ پتیوں، ایشیا سے نقل مکانی کرنے والے بینکار اور کچھ مالدار روسیوں کی آمد کرایوں اور قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے یوں دیگر 3 ملین سے زائد شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
پرائیویٹ اسکول جہاں تارکین وطن کے بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے، کی فیسیں بڑھ گئی ہیں، اعلیٰ ترین برطانوی سپر مارکیٹ چین ویتروز میں اشیائے خورونوش کی ہفتہ وار قیمتیں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ رہی ہے اور بنیادی طور پر کاروں کے لیے بنائے گئے شہر میں رش کے اوقات میں اوبر کی سواری اب آپ کو نیویارک ٹیکسی کے ریٹ پر ملتی ہے۔
ریئل اسٹیٹ ایڈوائزر سی بی آر ای گروپ انکارپوریٹڈ کے مطابق، امارات میں ایک ولا ، جو ایک خاندان کے لیے کافی ہے ، کا اوسط سالانہ کرایہ فروری سے لے کر سال میں 26 فیصد بڑھ کر 295,436 درہم ( ڈالر 80,436) تک پہنچ گیا۔ اپارٹمنٹ کا اوسط کرایہ 28 فیصد بڑھ کر تقریباً 100,000 درہم ہوچکا ہے۔
"دبئی کی نوعیت بدل رہی ہے،” کئی دہائیوں سے خطے میں کام کرنے والی ایک ایگزیکٹو بھرتی فرم کے بانی میٹن مچل نے کہا۔
"یہ اگرچہ ایک انتہائی متحرک معیشت بنتی جا رہی ہے، لیکن موناکو کی طرز پر۔ جہاں صرف امیر اور مالدار لوگوں کی ضروریات پورا ہوتی ہیں۔”
دبئی میڈیا آفس نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
دبئی میں، تقریباً 90 فیصد رہائشی غیر ملکی ہیں جن کی رہائش زیادہ تر ان کی ملازمت پر منحصر ہے۔
متحدہ عرب امارات نے چند منتخب افراد کو طویل مدتی ویزوں کی پیشکش شروع کردی ہے، لیکن اکثریت کے پاس مستقل رہائش یا شہریت حاصل کرنے کا کوئی واضح راستہ نہیں ہے۔
غیر ملکی رہائشی کہیں اور مواقع تلاش کرتے ہیں۔
2018 میں، بہت سے عارضی رہائشیوں نے رہائش اور کاروباری اخراجات میں واضح اضافے کے باعث یہاں کام کرنا چھوڑ دیا۔ دو سال بعد، ہزاروں مزید افراد کووڈ کی پابندیوں کے باعث ملازمت سے محروم ہو گئے۔
زیادہ تر رہائشی خاندان سعودی عرب جیسے بڑے ہمسایہ ملک کا رخ کرتے ہیں، جو ٹیلنٹ اور کاروبار کے لیے دبئی سے مقابلہ کر رہا ہے، اور سیاحت کے لیے بھی بیرونی دنیا کو راغب کر رہا ہے۔
وبا کے دوران دبئی میں کرایوں میں کمی واقع ہوئی، تو کچھ رہائشی ایسے علاقوں میں چلے گئے جن کے وہ پہلے متحمل نہیں ہو سکتے تھے اور اب جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ قیمتیں نہ صرف وبا سے پہلے کی سطح پر واپس آگئی ہیں بلکہ اس سے بھی اوپر جاچکی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ دیگر جگہوں کے مقابلے میں نسبتا کم ہے کیونکہ بلند افراط زر نے عالمی سطح پر طاقت کے اخراجات کو متاثر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دبئی ان ملازمتوں اور مواقع کی پیشکش کرتا ہے جو مغرب کی دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں اور ترقی یافتہ شہروں میں کم ہیں۔
لیکن کم بدتر ہونا کبھی بھی دبئی کی طرف رخ کرنے والوں کے لیے ترغیبی محرک نہیں تھا۔ نیویارک میں مقیم کنسلٹنٹ مرسر کے مطابق، صرف ایک دہائی قبل، دبئی غیر ملکیوں کے لیے 90 ویں سب سے مہنگی جگہ کے طور پر درجہ بندی کرتا تھا۔ پچھلے سال، یہ 31 ویں نمبر پر تھا، یعنی میامی سے صرف ایک درجہ آگے۔
دبئی کے اسکولوں کے لیے مشاورت دینے والے ماہر جیمز مولن نے کہا کہ "یہاں اب دونوں والدین کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اوسطاً ٹیوشن ہر سال 10,000 ڈالر سے زیادہ ہے، اور کچھ خاندان بڑھتی عمر کے بچوں کی فیسیں پوری کرنے کے لیے سستی رہائشوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
"یقینی طور پر، 10 سال پہلے، ایک مختلف صورت حال تھی کیونکہ کمپنیاں فیملی الاؤنسز اور اسکول فیس الاؤنس دے رہی تھیں۔ جو اب عملی طور پر غائب ہو چکے ہیں۔