کویت اردو نیوز 14 اپریل: دُنیا بھر میں مسلمان روزہ داروں کو سحری جگانے کا کلچر دم توڑ رہا ہے۔ سحری جگانا عموماً مردوں کا کام رہا ہے مگر پہلی بار غربت سے تنگ ایک خاتون نے سحری جگانے کا پیشہ اپنا کر لوگوں کو حیران کر دیا۔
تونس کی 56 سالہ منیرہ الکیلانی سوسہ ریاست کے شہر النفیضہ کی رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مشکل حالات اور مہنگائی نے مجھے روزی روٹی کی تلاش، بوڑھی ماں اور ایک بیمار بھائی کی کفالت کے لیے یہ کام کرنا پڑا ہے۔
سحری جگانے والی منیرہ کا کہنا ہے کہ اس نے’مسحراتیہ‘ کا کام اپنے والد سے سیکھا اور انہی کے ورثے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میرا کام صرف رمضان المبارک کے تیس دن ہوتا ہے اور میں اپنے والد کا ڈھول اٹھائے النفیضہ شہر کی گلی گلی ڈھول کی تھاپ پر’روزہ دارو اللہ کے پیارو، سحری کا وقت ہو گیا‘ کی صدائیں لگاتی ہوں۔
منیرہ الکیلانی نے بتایا کہ اس نے یہ کام 2019ء میں اس وقت شروع کیا جب گھر کے معاشی حالات خراب ہو گئے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں وہ کام کروں کو میرے مرحوم والد کیا کرتے تھے۔ وہ رمضان میں روزہ داروں کو سحر کے وقت جگاتے تھے اور میں چھوٹی عمر میں ان کے ساتھ ہوتی تھی۔
اندھیری رات اور مشکلات
مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے تونس کی منفرد ’مسحراتیہ‘ منیرہ کا کہنا ہے کہ وہ اندھیرے میں باہر جانے سے نہیں ڈرتی۔ اسے کبھی ہراساں نہیں کیا گیا لیکن اسے ہمیشہ ہر ایک کی حمایت ملی۔ وہ اپنے بچپن میں اپنے والد کے ساتھ جانے پر اصرار کرتی تھی اور آخری عمر میں اسے خود یہ کام پیشے کے طور پر اختیار کرنا پڑا اور اب وہ علاقے میں’ام طبیلہ‘ مشہور ہیں۔
اس نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے باقاعدگی سے پڑوسیوں سے پلاسٹک کی بوتلیں اور کچھ روٹیاں بھی اکٹھی کرتی ہیں، جن سے وہ اپنی بوڑھی ماں اور بستر علالت پر پڑے ایک بیمار بھائی کی دیکھ بھال کرتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ "ابو طبیلہ” یا "تیس دنوں کا پیشہ” جیسا کہ تونس میں کہا جاتا ہے ان پیشوں میں سے ایک ہے کئی دہائیاں گذرنے کے باوجود نسل در نسل وراثت میں ملتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو معدومیت کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔ بزرگ آج بھی اسے یاد کرتے ہیں اور نوجوان اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔