سعودی عرب کے ایوان تجارت کے سربراہ عجلان العجلان نے ترکی کی ہرشے کے بائیکاٹ کی اپیل کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہر سعودی شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ترکی کی مملکت میں درآمدات ،سرمایہ کاری اور سیاحت کا بائیکاٹ کرے۔‘‘ انھوں نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے بیان کے ردعمل میں بائیکاٹ کی یہ اپیل کی ہے۔ صدر ایردوآن نے قبل ازیں جمعرات کو کہا کہ ’’خطۂ خلیج کے بعض ممالک ترکی کو ہدف بنا رہے ہیں اور ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جن سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے۔‘‘
انھوں نے ترکی کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جن ممالک کی بات کی جارہی ہے، وہ کل اپنا وجود نہیں رکھتے تھے اور مستقبل میں بھی موجود نہیں ہوں گے تاہم ہم اللہ کی منشا سے اس خطے پر ہمیشہ اپنا پرچم لہراتے رہیں گے۔‘‘
ان کے اس بیان پر بعض سعودی عہدے داروں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔سعودی عرب کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ عجلان العجلان نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ ’’ترک حکومت کی ہماری قیادت، ہمارے ملک اور ہمارے شہریوں کے خلاف معاندانہ روش کے ردعمل میں اب یہ ہر سعودی شہری کا فرض ہے کہ وہ ترکی کی ہرچیز کا بائیکاٹ کردے۔سعودی تاجر اور صارفین تمام ترک درآمدات ، سرمایہ کاری اور سیاحت کا بائیکاٹ کردیں۔‘‘
ان کی اس اپیل پر اگر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو اس سے ہزاروں ترک برآمدکنندگان متاثر ہوں گے اور ترک معیشت پر ایسے وقت میں منفی اثرات مرتب ہوں گے جب وہ پہلے ہی زبوں حال ہے اورترک لیرا ڈالر کے مقابلے میں مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔ اس کی قیمت میں گذشتہ دو ایک سال میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے اور گذشتہ سوموار کو اس کی قدر میں 7.7 فی صد ریکارڈ کمی واقع ہوئی تھی۔ رائیٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کے دوران میں ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر میں 22 فی صد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ مغربی سرمایہ کار ترکی سے اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔ ترک پارلیمان کے سابق رکن ایقان اردمیر نے روزنامہ العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ترکی کو اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کا سامنا ہے، ترک بانڈز اور ایکویٹیز سے مغربی سرمائے کے انخلا نے مسائل کو دوچند کردیا ہے۔‘‘
مگر صدر ایردوآن غیرملکی اداکاروں کو ترکی کی ابتر معیشت کا ذمے دار قراردیتے ہیں۔انھوں نے مئی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ غیرملکی سازشوں کے ذریعے ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ترک حکومت کے مخالفین وزیر خزانہ اور صدر ایردوان کے داماد بیرات البیرق کی پالیسیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
سابق وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے گذشتہ ماہ ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’’البیرق نے ترک معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ ان کے تقرر کا ایک ہی سبب ہے اور وہ اقربا نوازی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کے مقابلے میں لیرے کی قدر میں مسلسل کمی کے ذمے داروں کا تعیّن کیا جائے اور ان کا احتساب کیا جانا چاہیے۔
طیب ایردوآن کے بعض ناقدین ترک معیشت کی زبوں حالی کا ایک اور بھی سبب بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ترکی کی اندرونی صورت حال کو بہتر بنانے کے بجائے دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت کررہے ہیں۔ وہ شام اور لیبیا کے بعد اب آذر بائیجان میں ترکی کی فوجی مداخلت کا حوالہ دیتے ہیں جہاں ترکی کے عسکری اور مالی وسائل کو جھونکا جا رہا ہے۔