کویت اردو نیوز : پرانی پاکستانی یا بالی ووڈ فلموں میں اکثر یہ دکھایا جاتا تھا کہ بچے کسی وجہ سے اپنے خاندان سے الگ ہوجاتے ہیں اور برسوں بعد دوبارہ مل جاتے ہیں۔
یقین کرنا مشکل ہوگا لیکن ایسا واقعہ دراصل سارو نامی شخص کے ساتھ پیش آیا۔
5 سال کی عمر میں یہ شخص اپنے گھر والوں سے بھاگ کر اپنے گھر سے 1000 میل دور پہنچ گیا۔
سڑکوں پر اپنے خاندان کو تلاش کرنے کے بعد، وہ ایک یتیم خانے میں پہنچ جاتا ہے جہاں اسے آسٹریلیا کے ایک جوڑے سو اور جان بریرلی نے گود لیا ۔
اس طرح یہ بچہ ہندوستان سے آسٹریلیا پہنچا اور وہاں اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ لیکن برسوں وہاں رہنے کے باوجود سارو اپنے خاندان سے ملنے کو ترس رہا تھا ۔
بچپن میں سارو اور اس کا بھائی ٹرینوں میں جاتے اور کھانا تلاش کرتے۔ 1986 میں، سارو ایک خالی ٹرین میں سوار ہوا جو سکوں کی تلاش میں اپنے آبائی شہر سے زیادہ دور نہیں رکی۔
اس ٹرین میں اپنے بھائی کا انتظار کرتے کرتے سارو سو گیا اور کئی گھنٹوں بعد اس کی آنکھ کھلی جب وہ گھر سے بہت دور تھا۔ یہ ٹرین سارو کو کولکتہ لے گئی۔
سارو نے ایک انٹرویو کے دوران کہا، ’’میں بھوکا تھذ اور رو رہا تھا کیونکہ مجھے اپنی ماں، بھائی اور بہن کی کمی محسوس ہوئی۔
ٹرین سے نکلنے کے بعد، وہ کئی ہفتوں تک کولکتہ کی گلیوں میں گھومتا رہا، پھر وہ ایک یتیم خانے میں گیا جہاں سے اس نے آسٹریلیا کا رخ کیا۔
آسٹریلیا پہنچنے کے 2 دہائیوں بعد سارو نے گوگل ارتھ کی مدد سے اپنے خاندان کو تلاش کرنا شروع کیا۔
آسٹریلیا میں، وہ اپنے نئے والدین کے ساتھ خوش تھا، لیکن اس کی ماں کی یاد نے اسے ہمیشہ پریشان کیا.
سارو کے ذہن میں حقیقی ماں کی تصویر موجود تھی اور وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا خاندان کہاں ہے۔
اس کے لیے سارو نے گوگل ارتھ سرچ کے ذریعے اپنی تلاش شروع کی اور ہر رات اپنے لیپ ٹاپ پر سیٹلائٹ کی تصاویر دیکھنے میں گھنٹوں گزارے۔
ایک انٹرویو میں سارو نے بتایا کہ ‘میں نے ریاضی کا استعمال کیا اور وہ سب کچھ جو مجھے اپنے آبائی شہر کے بارے میں یاد تھا’۔
یہ تلاش گوگل ارتھ پر 5 سال سے زائد عرصے تک جاری رہی، اس دوران اس نے بھارت میں ٹرین کی پٹریوں کے نیٹ ورک کو دریافت کیا جو کولکتہ سے دوسرے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ پھر ایک دن سارو نے اچانک وسطی ہندوستان کے ایک گاؤں کی تصویریں دیکھیں۔
ان تصویروں میں ایک جنگل، ایک مندر، ایک چھوٹا پل اور آبشار وغیرہ ان کے بچپن کی یادوں کی طرح تھے۔
پہلے تو سارو نے سوچا کہ اس کا دماغ اسے دھوکہ دے رہا ہے، لیکن پھر دوسری چیزوں نے اسے یقین دلایا کہ یہ اس کی آبائی زمین ہے۔
فروری 2012 میں سارو وسطی ہندوستان کے ایک شہر کھنڈوا پہنچذ اور وہاں گھومنے لگا۔ اس تلاش کے دوران اس نے ان سڑکوں اور راستوں کو تلاش کیا جو بالآخر اسے اپنے مانوس علاقے تک لے گئے۔
اس گاؤں کے لوگ اسے ایک بوڑھی عورت کے پاس لے گئے جو سارو کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ عورت سارو کی حقیقی ماں تھی۔
سارو کی اصل ماں کا نام فاطمہ تھا جنہوں نے اپنے لاپتہ بیٹے کو گلے لگایا اور دونوں رونے لگے۔ ایک سال بعد سارو کے والدین آسٹریلیا سے ہندوستان آئے اور فاطمہ سے ملے۔
اس کے بعد سارو کئی بار آسٹریلیا سے ہندوستان آیا اور گھر خرید کر اپنی حقیقی ماں کو دیا ۔
سارو نے اس سفر پر ایک کتاب بھی لکھی، جو 2016 میں ہالی وڈ فلم لائن میں ریلیز ہوئی، جس میں دیو پٹیل نے سارو بریرلے کا کردار ادا کیا۔
اسی طرح گوگل نے سارو بریرلے کی تلاش پر ایک یوٹیوب ویڈیو بھی جاری کی۔