کویت اردو نیوز 6جولائی: کینسر راتوں رات آپ کے جسم کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ اس کے لیے کافی عرصہ درکار ہوتا ہے، اگر آپ اوائل عمر یا نوجوانی سے ہی سرطان کے خلاف مزاحمت کرنے والی غذاﺅں اور طرز زندگی کے دیگر امور کو اپنا لیں تو کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کرسکتے ہیں۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ بروقت احتیاطی تدابیر اختیار کر کے کینسر کو شکست دی جا سکتی ہے۔ امراض قلب کے بعد سب سے زیادہ اموات سرطان کے سبب ہوتی ہیں تاہم بہتر طرز زندگی اختیار کرنے سے کینسر کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔
برطانوی ماہرین طب نے ہر قسم کے کینسر کا علاج کرنے والا طریق کار دریافت کرنے کی نوید سنائی ہے۔ اس علاج کا تعلق ہمارے ٹی خلیوں(T cells) سے ہے۔انسانی جسم کا حفاظتی یا مدافعتی نظام (Immune system)مخصوص خلیے رکھتا ہے۔ جب کسی بیماری کے جراثیم یا وائرس انسانی بدن میں داخل ہوں تو سب سے پہلے یہی مدافعتی خلیے انہیں ختم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان خلیوں کی مختلف اقسام ہیں۔ ٹی خلیے وہ خصوصی مدافعتی خلیے ہیں جو کینسر کے خلیوں پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہی خصوصیت انہیں دیگر مدافعتی خلیوں سے ممتاز کردیتی ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی جرثومہ یا وائرس انسانی جسم کے کسی خلیے پر قبضہ کرلے تو متاثرہ خلیہ مخصوص پروٹین کے سالمات (Molecules) خارج کرتا ہے۔ یہی پروٹینی سالمے ٹی خلیوں میں مدافعتی نظام چالو کردیتے ہیں۔ ٹی خلیوں کی سطح پر بھی مخصوص پروٹینی سالمے پائے جاتے ہیں۔ اب جرثومے یا وائرس کی نوعیت و ہیئت کے مطابق ٹی خلیوں کی کوئی قسم متاثرہ خلیوں پر حملہ کردیتی ہے۔ حملہ یوں ہوتا ہے کہ ٹی خلیوں کے پروٹینی سالمات متاثرہ یا بیمار خلیے کی سطح پر چمٹ جاتے ہیں۔ یوں ٹی خلیوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ بیمار خلیے کا تیا پانچہ کر ڈالیں۔
رفتہ رفتہ مگر تحقیق و تجربات سے عیاں ہوا کہ بعض انسانوں میں کینسر پنپ نہیں پاتا اور وہ شفایاب ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ ان میں کینسر سے نبرد آزما خلیوں میں کوئی خاص بات تھی جس نے کینسر جیسے موذی بیماری کے وائرس کو پلنے بڑھنے نہیں دیا اور آخر مار ڈالا۔
چناں چہ طبی سائنس داں ٹی خلیوں پر تحقیق کرنے لگے۔
جس انسان میں ایک پروٹینی مادہ،ایچ ایل اے (human leukocyte antigen) رکھنے والے ٹی خلیے زیادہ ہوں تو وہ خصوصاً خون کے کینسر میں مبتلا نہیں ہوتا۔ یہ علاج CAR-T کہلاتا ہے۔اس علاج میں طریق کار یہ ہے کہ جب کوئی انسان خون کے کینسر میں مبتلا ہو، تو CAR-T اپناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا خون نکالا جاتا ہے۔
جس میں ٹی خلیے دوڑتے پھرتے ہیں۔ یوں وہ خون کے ساتھ ساتھ پورے جسم میں محو حرکت رہتے ہیں۔ پھر جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے نکالے گئے خون کے زیادہ سے زیادہ ٹی خلیوں میں ایچ ایل اے پروٹینی مادہ داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خون پھر مریض کے جسم میں جاپہنچتا ہے۔ یہ عمل کئی بار انجام پاتا ہے۔ اس طرح مریض کے جسم میں ایچ ایل اے رکھنے والے ٹی خلیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ وہ پھر کینسری خلیے مار ڈالتے ہیں۔ یوں مریض تندرست ہوتا چلا جاتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز، خوراک پر توجہ اور وزن کم رکھنے جیسی تدابیر اس مرض سے بچا سکتی ہیں۔
تمباکو نوشی
سگریٹ نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں، گلے، غذائی نالی اور مثانے کے کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھیپھڑوں کا کینسر عام طور پر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق تمباکو نوشی ترک کرنے سے اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات میں واضح کمی ہو جاتی ہے۔
موٹاپا
عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ موٹاپے کا کینسر سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن کاکس کا کہنا ہے کہ کینسر کے 5 سے 6 فیصد مریض زیادہ وزن اور موٹاپے کی وجہ سے ہی اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
بلکہ ایسے دبلے پتلے افراد جن کے پیٹ میں چربی کی مقدار زیادہ ہو، ان میں بھی اس مرض میں مبتلا ہونے کے کافی امکانات ہوتے ہیں۔
غذا
ماہرین کے مطابق 10 فیصد مریض غیر متوازن غذا استعمال کرنے کے سبب کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سائنس تصدیق کر چکی ہے کہ سرخ گوشت کے استعمال سے نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔پھلوں اور سبزیوں کا بکثرت استعمال کینسر سے بچاؤ میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
ورزش
جسمانی ورزش اور سرگرمیوں سے بڑی آنت اور چھاتی کے سرطان سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے۔ کاکس کا کہنا ہے کہ ورزش کر کے کینسر کی دیگر اقسام سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
شراب نوشی
تقریباﹰ 5 فیصد مریض شراب نوشی کی وجہ سے سرطان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ شراب کے ساتھ سگریٹ بھی پینے والے افراد میں تو یہ خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
یو وی (الٹرا وائلٹ)
ماہرین کا کہنا ہے کہ جلد کے سرطان کا بنیادی سبب (sunburns) سن برن ہوتا ہے۔ اس لیے دھوپ سے بچنا ضروری ہے۔ تاہم ہر وقت گھر کے اندر یا صرف سائے میں رہنا بھی نقصان دہ ہے۔ دھوپ وٹامن ڈی کا اہم ذریعہ ہے جو ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
میٹھے مشروبات
میٹھے مشروبات جیسے سافٹ ڈرنکس وغیرہ نہ صرف موٹاپے اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھاتے ہیں بلکہ معدے یا اس سے متعلقہ دیگر عضو میں کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ رحم مادر کے کینسر کا خطرہ 87 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، جبکہ موٹاپے اور ذیابیطس جیسے عوارض الگ عذاب جان بن سکتے ہیں۔
زیادہ کھڑے ہونا، کم بیٹھنا
حالیہ طبی تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے دن کا زیادہ تر وقت بیٹھ کر گزارنے کے عادی ہوتے ہین ان میں بڑی آنتوں اور معدے کے کینسر کا خطرہ جسمانی طور پر سرگرم افراد کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ایک الگ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ٹیلی ویژن کے سامنے بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں ان میں آنتوں کے کینسر کا خطرہ 54 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اگر تو کھڑا ہونا مشکل لگتا ہے تو ہر گھنٹے میں کم از کم کچھ منٹ کے لیے ارگرد کی چہل قدمی کو ہی اپنالیں جو اس موذی مرض کا خطرہ کم کرنے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے۔
لہسن کا استعمال
برصغیر کے ہر کھانے میں لگ بھگ عام استعمال کی جانے والی اس سبزی یا جڑی بوٹی میں ایلائیل سلفر نامی جز پایا جاتا ہے جو کینسر کے خلاف جسم کے اندر موجود قدرتی دفاعی نظام کو حرکت میں لاتا ہے، جس کے نتیجے میں کینسر کا باعث بننے والے کیمیکلز کو جسم سے خارج کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
دن میں کچھ دیر سورج کی روشنی میں گھومنا
ہمارے جسم میں وٹامن ڈی کی 90 فیصد مقدار سورج کی روشنی کے نتیجے میں آتی ہے اور اس میں غذا یا کسی سپلیمنٹ کا کمال نہیں ہوتا۔ وٹامن ڈی کی کمی خلیات کے درمیان رابطے کی صلاحیت کو گھٹا دیتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے اکھٹے ہونے کا عمل رک جاتا ہے اور کینسر کے خلیات کو پھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی خلیات کے مناسب رابطے اور دوبارہ پیدا ہونے کے عمل کو بھی روکتا ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں بریسٹ، آنتوں، مثانے، مادر رحم اور معدے کے کینسر کا خطرہ بہت ہوتا ہے جبکہ ہڈیوں کی کمزوری، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر بھی آپ کو شکار کرسکتا ہے۔ مگر سورج کی روشنی میں بہت زیادہ رہنا جلد کے کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
سبز چائے
متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں سبز چائے اور کینسر کے درمیان تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔ سبز چائے کا استعمال معمول بنالینے سے بریسٹ، مادر رحم، آنتوں، مثانے اور پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ کچھ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سبز چائے میں پائے جانے والے کیمیکلز درحقیقت چند طاقتور انسدادِ کینسر اجزاءمیں سے ایک ہوتے ہیں جس کی وجہ ان میں بڑی تعداد میں اینٹی آکسائیڈنٹس کا پایا جانا ہے۔
مچھلی کا استعمال
جو خواتین ہفتے میں تین بار مچھلی کا استعمال کرتی ہیں ان میں آنتوں کے کینسر کا باعث بن جانے والے خلیات کی نشوونما کا خطرہ بھی 33 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ مچھلی خاص طور پر سالمون اومیگا تھیر فیٹی ایسڈز سے بھرپور ہوتی ہے جو کہ کینسر کے خلاف جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اپنے بیڈروم میں تاریکی رکھنا
کئی طبی تحقیقی رپورٹسمیں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رات کو روشنی میں رہنے سے خواتین میں مادر رحم اور بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ درحقیقت روشنی جسم میں میلاٹونین کی نارمل مقدار کی پیداوار کو کم کردیتی ہے جو ایسا دماغی کیمیکل ہوتا ہے جو نیند کے چکر کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں کینسر کے خلیات سے بھرپور ایسٹروجن کا اخراج بڑھ جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطاق ایسی خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے جو میلاٹونین کی بلند مقدار کے دوران سونا پسند نہیں کرتیں۔
پیاز کھائیں
جب بات ہو کینسر کے خلاف لڑنے والی اشیاءکی تو پیاز کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کارنیل یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ پیاز کے اندر ایسے طاقتور اینٹی آکسائیڈنٹس ہوتے ہیں جو کینسر کی متعدد اقسام سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کا غذا میں استعمال یا خام صورت یعنی کچھ مقدار میں روزانہ کچا کھانا بھی آپ کو اس جان لیوا مرض سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے جبکہ یہ مزاج پر چھائی مایوسی کو بھی دور بھگانے میں مددگار سبزی ہے۔
تلی ہوئی اشیاءکا کم استعمال
جب غذاﺅں کو تیز آنچ پر تلا یا بھونا جاتا ہے تو اس میں ایک کینسر کا باعث بننے والے جز acrylamide تشکیل پانے کا امکان بھی پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ تیز آنچ میں بننے سے غذا میں آنے والی کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق acrylamide کے طویل عرصے تک جسم کا حصہ بننے سے مختلف اقسام کے کینسر لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے مسلسل طبی تحقیقات جاری ہیں اور ماہرین کا مشورہ ہے کہ فرنچ پرائز یا آلو کے تلے ہوئے چپس کے بہت زیادہ استعمال سے گریز کرنا زیادہ بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔
اسپیرین کا استعمال
اگر ڈاکٹر آپ کو دل کی صحت بہتر بنانے کے لیے اسپرین لینے کا مشورہ دیں تو درحقیقت اس سے آپ کے جسم کو کینسر سے محفوظ رہنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ امریکا کے کینسر کے قومی ادارے کی ایک تحقیق کے مطابق جو خواتین روزانہ اسپرین کا استعمال کرتی ہیں ان میں مادر رحم کے کینسر کا خطرہ 20 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ تاہم اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر روزانہ اسپرین کا استعمال نہ کریں کیونکہ یہ آپ کے معدے کی نالی میں خون بہنے کا باعث بن سکتی ہے۔
کینسر سے متاثرہ افراد اگر طبی علاج کے ساتھ کوئی اضافی ٹوٹکے بھی آزما رہے ہوں تو اپنے ڈاکٹر کو ضرور بتائیں، کیوںکہ کئی چیزوں کا استعمال علاج میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔
لسبن کے چیمپالیمو کینسر سینٹر میں سرجن پروفیسر ماریہ جواؤ کارڈوسا کہتی ہیں کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ جڑی بوٹیوں کے نسخے یا کریمیں کینسر کے علاج میں مدد کرتی ہیں۔ اور اگر ان کے استعمال پر ذرا بھی شک ہو تو بہتر ہے کہ انھیں استعمال نہ کیا جائے۔
ان کے بقول یہ بہت ضروری ہے کہ کینسر کے مریض کوئی بھی اضافی نسخہ استعمال کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر کو بتائیں۔ خاص طور پر اگر کینسر جلد میں پھیلنے لگا ہو۔ انھوں نے بتایا کہ ایسا بریسٹ کینسر کے معاملے میں زیادہ ہوتا ہے۔
نسخوں کو استعمال کرنے کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ہارمون تھیراپی یا کیموتھیراپی جیسے علاج میں مداخلت کر سکتے ہیں۔
پروفیسر کارڈوسو نے کہا کہ اس میں حیرانی کی بات نہیں کی مریض اور ان کے رشتہ دار اضافی علاج کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ انھیں کچھ ایسا چاہیے ہوتا ہے جو صورت حال میں بہتری لا سکے۔ لیکن انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ وہ خود کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ایڈوانسڈ بریسٹ کینسر کی پانچویں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران پروفیسر کارسوڈو نے کہا کہ یہ ضرور ہے کہ یوگا، مائنڈ فلنس، ریکی اور آکو پنکچر جیسی تھیراپیوں سے کینسر کے مریض کے معیار زندگی پر مثبت اثر ہو سکتا
ہے۔