کویت اردو نیوز : برطانوی حکومت کی جانب سے امیگریشن کی تعداد میں کمی کیلیے نئے قوانین کےاعلان سے جنوبی ایشیاکے ممالک کےعوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، جو اب 2024 ء میں نئےقواعد وضوابط کے نافذ ہونے سے پہلے اپنےاپنے طے شدہ منصوبوں کو تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔
برطانیہ میں رہائش ایک 25 سالہ برطانوی پاکستانی ماہرقانون نے نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر بتایا ہےکہ ہم سب بہت گھبراہٹ کا شکار ہیں کیوں کہ حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مقیم شخص کیلیے فیملی کو اسپانسر کرنے کیلیے کم از کم آمدنی کی حد 18ہزار 600 پاؤنڈز سےبڑھاکر 38 ہزار 700 پاؤنڈز تک کردی گئی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں برطانیہ میں ابتدائی تنخواہیں 22 ہزار پاؤنڈز سے لے کر26 ہزار پاؤنڈز سالانہ کےدرمیان ہوتی ہیں،اور میں تقریباً 21 ہزار پاؤنڈز کمارہا ہوں جو پچھلی حد (18 ہزار پاؤنڈز) سےکچھ زیادہ تھے، اب اچانک اس حد کو بھی بڑھا دیاگیا ہے، میں راتوں رات 38 ہزار 600 پاؤنڈز نہیں کماسکتا۔
انہوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ میں 2024 ء کے موسم گرما میں اپنی پاکستانی منگیترسے شادی کرنیکا ارادہ کر رہا تھا اور میرے خاندان کے تمام ٹکٹس اور مقامات وغیرہ بک ہو چکےہیں، اب مجھےاپنی سیونگز استعمال کرنا پڑیں گی اور اس عمل کوجلد سے جلد کرنا ہوگا تاکہ نئی پالیسی کے نفاذ سے قبل ہی میں اپنی شریک حیات کو یہاں لاسکوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہےکہ میرے بہت سے دوست گھبراہٹ کاشکار ہیں کیوں کہ ان کی منگیتر پاکستانی ہیں اور جلد ہی انکی شادی ہونے والی ہے، وہ نہیں جانتےکہ اس تبدیلی پر عمل کیسےکیا جائے گا اور وہ اسوقت شدید پریشان ہیں۔
ایک 25 سالہ برطانوی سری لنکن خاتون نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں سری لنکا میں اپنی شادی میں تاخیرکرنا پڑے گی۔
انہوں نے کہا ہےکہ میں نے پچھلے برس منگنی کی تھی اور یہ ارادہ کیا تھاکہ ہم اگلے سال وہیں شادی کریں گے اور طھر میرے منگیتر کو میرےساتھ واپس یہاں آنا تھا، میرےگھر والے سب بہت صدمے میں ہیں، اگر ہم شادی وہاں کربھی لیتے ہیں توبھی میں اپنے منگیتر کو اسپانسر نہیں کر سکتی کیوں کہ میں اتنی آمدنی نہیں ، یہ کوئی معقول اضافہ نہیں بلکہ یہ دوگنا اضافہ ہے۔
انہوں نے مزید یہ بھی کہا ہےکہ میں شادی کو مؤخر کرنے پر مجبور ہوگئی ہوں، آپ جانتے ہیں کہ ایشیائی خاندانوں میں یہ کیسا ہوتا ہے ؟ جیسے جیسے عمر بڑھ رہی ہوتی ہے اور عورتیں شادی نہیں کرتیں تو لوگ باتیں بناتے ہیں۔
برطانوی حکومت کی نئی پالیسی امیگریشن قوانین اور فیسز میں تبدیلیوں کے سلسلے میں تازہ ترین اہم اقدام ہے، جولائی 2023 ء میں برطانوی حکومت نے ورک ویزااور وزٹ ویزوں کی لاگت میں 15 فی صد اضافےکا اعلان کیا تھااور ترجیحی ویزا، اسٹڈی ویزا اور اسپانسر شپ کے سرٹیفکیٹ کی لاگت میں تقریباً 20 فی صد اضافے کا اعلان کیا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں مائیگریشن آبزرویٹری کی ڈائریکٹر ڈاکٹر میڈلین سمپشن کا کہنا ہےکہ ہوم سیکرٹری کیجانب سے آمدنی کی حدکو 38 ہزار 700 پاؤنڈز تک بڑھانے کے فیصلے سےفردِ واحد پربہت زیادہ زیادہ اثرات مرتب ہو سکتےہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہےکہ سب سے زیادہ اثرات کم آمدن والے برطانوی شہریوں اور خاص طور پر خواتین اور دیگرکم عمر افراد پر پڑیں گےجو کم آمدنی کما پاتے ہیں۔
اسے بہت سے خاندانوں کیلیے ایک ’تاریک دن‘ قرار دیا گیا نو کم از کم آمدنی کی دوگنی سے بھی زیادہ حدکو پورا کرنے سےقاصر ہو گے ہیں اور شعبہ صحت سے تعلق رکھنیوالے وہ افراد بھی جنہیں اپنے خاندان کو برطانیہ لانےکی اہلیت کےبغیر برطانیہ آنا ہوگا۔
کینٹربری کے آرچ بشپ نے بھی اس بات سے خبردار کیاہے کہ نئے ویزاقوانین کا خاندانی تعلقات پر’منفی اثر‘ پڑے گا، جسٹن ویلبی نےبھی کہا ہےکہ حکومت امیگریشن میں کمی کے بارے میں جائز طور پر بہت فکر مند ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ آمدنی کی زائدحد کے باعث بہت سےخاندان ایک ساتھ رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
بیرسٹر رشیداحمد نے کہا کہ پالیسی میں یہ تبدیلیاں انتہائی مضحکہ خیزہیں اور لوگ ان کو عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
بیرسٹر ردا فواد نے نشاندہی کی ہےکہ جو لوگ شریک حیات اور بچوں کا ویزا اسپانسرکرنا چاہتےہیں ان کو اس سےبھی زیادہ رقم ادا کرنی ہوگی۔
انہوں نے کہا ہےکہ لوگ کافی حد تک امید کھورہے ہیں، کوئی واضح ڈیڈ لائن نہیں ہے لیکن اپنے ہی خاندان کوویزا اسپانسر کرنیوالوں کو 38 ہزار 700 پاؤنڈز سےزیادہ آمدنی ظاہر کرنی ہوگی۔